تفسیر؛عطر قرآن:تفسیر سورۂ بقرہ
بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴿بقرہ، 180﴾
ترجمہ: تم پر لکھ دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کے سامنے موت آکھڑی ہو۔ بشرطیکہ وہ کچھ مال چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب وصیت کر جائے اپنے ماں، باپ اور زیادہ قریبی رشتہ داروں کیلئے۔ یہ پرہیزگاروں کے ذمہ حق ہے (لازم ہے).
تفســــــــیر قــــرآن:
1️⃣ موت جب قریب ہو یا اس کے نتائج پیدا ہوں تو وصیت کرنا واجب ہے.
2️⃣ مال و دولت خیر ہے.
3️⃣ انسان کو چاہیے کچھ اموال اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لیے وصیت کرے.
4️⃣ مالی وصیتوں کو عرف عام کے مطابق ہونا چاہیے اتنی زیادہ نہ ہوں کہ لوگ ان کو نامناسب اور ناروا تصور کریں.
5️⃣ دینی احکامات میں عرف عام کے معیارات کی اہمیت ہے.
6️⃣ میت کی مالی وصیتیں نافذ ہیں اور ان کی قانونی اہمیت ہے.
7️⃣ وصیت ملکیت کے اسباب میں سے ہے.
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر راھنما، سورہ بقرہ